Home
Poetry
Categories
آوازِ قلم
Poets
About Us
Contact Us
roman
آوازِ قلم
Home
Poetry
Categories
Poets
About Us
Contact Us
roman
شعر
میر انیس
گلدستۂ معانی کو نئے رنگ سے باندھوں
ایک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں
شعر
تھا حکم یہ یزید کا پانی بشر پئیں
جب رن میں سر بلند علی کا علم ہوا
سواۓ خاک کے باقی اثر نشان سے نہ تھے زمین سے دب گئے دبتے جو آسمان سے نہ تھے
لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے پھر امبار خبر کرو میرے کھیرمان کے خوشہ چینوں کو
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر بھُن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
'انیس' دم کا بھروسہ نہیں، ٹھہر جاؤ چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
'انیس' آسان نہیں آباد کرنا گھرِ محبت کا یہ ان کا کام ہے جو زندگی برباد کرتے ہیں
اشکِ غم، دیدۂ پر نم سے سنبھالے نہ گئے یہ وہ بچے ہیں جو ماں باپ سے پلے نہ گئے
تمام عمر جو کی ہم سے بے رُخی سب نے کفن میں ہم بھی عزیزوں سے منہ چھپا کے چلے
تمام عمر اسی احتیاط میں گزری کہ آشیان کسی شاخِ چمن پہ بار نہ ہو
آشِک کو دیکھتے ہیں دوپٹے کو تان کر دیتے ہیں ہم کو شربتِ دیدار چھان کر