غزل

Bahadur Shah Zafar

بہادر شاہ ظفر

جگر کے ٹکڑے ہوئے جل کے دل کباب ہوا 
یہ عشق جان کو میرے کوئی عذاب ہوا 

کیا جو قتل مجھے تم نے خوب کام کیا
 کہ میں عذاب سے چھوٹا تمہیں ثواب ہوا 

کبھی تو شیفتہ اس نے کہا کبھی شیدا 
غرض کہ روز نیا اک مجھے خطاب ہوا

 پیوں نہ رشک سے خوں کیونکہ دم بہ دم اپنا
 کہ ساتھ غیر کے وہ آج ہم شراب ہوا 

تمہارے لب کے لب جام نے لیے بوسے
 لب اپنے کاٹا کیا میں نہ کامیاب ہوا

 گلی گلی تری خاطر پھرا بچشم پر آب
 لگا کے تجھ سے دل اپنا بہت خراب ہوا 

تری گلی میں بہائے پھرے ہے سیل سرشک
 ہمارا کاسۂ سر کیا ہوا حباب ہوا 

جواب خط کے نہ لکھنے سے یہ ہوا معلوم
 کہ آج سے ہمیں اے نامہ بر جواب ہوا

منگائی تھی تری تصویر دل کی تسکیں کو 
مجھے تو دیکھتے ہی اور اضطراب ہوا

 ستم تمہارے بہت اور دن حساب کا ایک 
مجھے ہے سوچ یہ ہی کس طرح حساب ہوا

 ظفرؔ بدل کے ردیف اور تو غزل وہ سنا
 کہ جس کا تجھ سے ہر اک شعر انتخاب ہوا

غزل